ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ملکی خبریں / مسلمانوں کے داخلی انتشار کا سد باب کون کرے؟ از:عبدالمعیدازہری

مسلمانوں کے داخلی انتشار کا سد باب کون کرے؟ از:عبدالمعیدازہری

Mon, 16 Jan 2017 11:46:49  SO Admin   S.O. News Service

جہاں اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اسلام، انسانیت کی بنیاد پر اتحاد واتفاق اور رواداری کا مذہب ہے، وہیں یہ بات بھی افسوس کے ساتھ قابل یقین اور سبق آموز ہے کہ پوری دنیا کو اتحاد کی دعوت دینے والے مسلمان خود کئی فرقوں اور جماعتوں میں بٹ گئے ہیں۔سنی، شیعہ اور وہابی میں بٹا ہوا کلمہ گو مسلمان اس قدرایک دوسرے کا مخالف ہو گیا ہے کہ تینوں ہی ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہے ہیں۔ اسی انتشار نے امت مسلمہ کے شان و وقار کا شیرازہ بھی بکھیر کر رکھ دیا ہے ۔ آج مسلمانوں کی جو حالت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔پوری انسانیت کے حق میں دعا گو اور خیر خواہ اسلام بھی طعن تشنیع کا نشانہ بنتا جا رہاہے ۔ اسلامی تعلیمات ، روایات و اخلاقیات ایک پرانی تاریخ بن کر رہ گئے ہیں۔ جن اصولوں کی پابندی نے مسلمانوں کو دنیامیں حاکمیت کا عروج بخشا تھا آج وہی اصول خود مسلمانوں کے یہاں نا قابل قبول ہو گئے ہیں۔ آج کا ہر سنجیدہ مسلمان ایک مستقل حل چاہتا ہے ۔ ایمان و کفر کے درمیان واضح تشریح، توضیح اور تفصیل کی طلب اور مانگ کرتاہے ۔ یا تو انسان مسلمان ہے یا نہیں ہے ۔ مسلمان ہے تو پھر اچھائی اور برائی اختیار کرنے کے اختیارپر اس کی اصلاح کی جائے ۔ اگر مسلمان نہیں تو پھر اس سے اسلامی معاملات میں بحث کرنے ، مناظرہ اور کتابوں کے ذریعہ زبانی جمع خرچ کا جہاد کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔
پچھلی کچھ دہائیوں سے کلمہ گو کے درمیان اتحاد کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ قرآن بھی کہتا ہے کہ ایسی بات پر متحد ہو جاؤ جو مشتر ک ہوں ۔ یوں تو سماجی اور ملکی اتحاد میں ہم جی رہے ہیں۔مسلمانوں کے آپسی اتحاد کے بارے میں سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ سبھی اس اختلاف کو شریعت و عقیدت کی بنیاد پر سمجھتے ہیں۔لیکن کوئی بھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے سمجھنے کو تیار نہیں۔ سبھی کی اپنی انا سامنے آجاتی ہے۔ اتحادکی تمام کوششیں محض خاکوں اور منسوبوں میں ہی بند ہو کر رہ جاتی ہیں۔مسلمانوں کے ساتھ روز اول سے ہی یہ مسئلہ در پیش رہا ہے کہ کچھ منافق صفت ، ریاکار، نفس پرست لوگوں نے دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے ۔ لیکن تصوف کی تعلیم نفس کشی نے ہمیشہ اس منافقت کو شکست دی ہے۔ آج تک وہ معاملہ چل رہا ہے ۔ شاید اسی وجہ سے اتنے اختلاف وجود میں آ رہے ہیں۔لیکن تمام تر اختلافات میں آج اکثر ذاتی انا کا دخل زیادہ نظر آتا ہے ۔البتہ اس بات سے انکار نہیں کہ گستاخی یا بدعات نہیں ہوئی ہیں۔
اکثر کہیں نہ کہیں افراط و تفریط کا شکار ہوئے ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ جس نے بھی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کی وہ خود بھی افراط و تفریط کے تعصب میں آگیا ۔ یعنی ’مر ض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ہے ‘۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس زخم کو سوئی سے سلنا تھا اس میں چاقو اور خنجر کا استعمال کیا گیا اور جہاں استقلال اور استقامت سے کھڑے ہونے کی ضرورت تھی وہاں جملوں کے جمع خرچ اور بیان بازی اور یلزام تراشی سے کام لیا گیا ۔ آپسی اختلاف کو اپنی نجی اور ذاتی محفلوں میں خوب ہوا دی گئی ۔ اسلام کی جو تعلیم ہمارے اکابر بزرگوں اور صوفیوں نے دی ہے، اس پر عمل ہوتا نظر نہیں آیا ۔ ذاتی چپقلش کو مذہبی رنگ دے کر عوام کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ اپنی کم علمی اور نااہلی کو چھپانے کیلئے بھی اس حربہ کا استعمال کیا گیا ۔ کسی کے ساتھ بیٹھ کر صلح مصالحت کی بجائے سیاسی بیان بازی اور ایک دوسرے پر الزال تراشی سے کام لیا گیا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی صحیح تصویر ان ذاتی منافقتوں کی دھول میں چھپ کر رہ گئی ۔ اصل اختلاف لوگ بھول گئے فروعیات میں ایسا تنا زع چل رہا ہے مانوں اقتدار کی لڑائی ہے ۔ کسی بھی قیمت پر اپنے موقف کو ثابت کرنا ہے ۔ اس کے لئے قرآن و حدیث کا جائز و ناجائز استعمال کرنا پڑے تو کوئی بات نہیں۔ تاویل اور نجی تفسیر کے راہیں پہلے ہی ہموار کر لی گئیں۔
بہت سے ایسے فروعی اختلافات ہیں جن میں صرف اور صرف غلط فہمیاں ہی دوریاں بڑھا رہی ہیں۔ ذمہ داران اس بات کو سمجھ کر اس کا حل کرنے کو تیار نہیں ۔ شاید انہیں لگتا ہے کہ ایسا کرنے پر مارکٹ میں ان کی ویلو اور اہمیت میں کمی آ جائے گی ۔ اسلئے اس طرح کی دوریوں کو وہ خود بنائے رکھنا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں لوگ اپنے آپ کو چاہے جس مسلک و فرقہ سے جوڑ لیں باہر ممالک میں جا کر اکثر کی بولی اور موقف بدل جاتا ہے ۔ سعودی اور ان کے ہمنوا ممالک میں سبھی صرف مسلمان ہو تے ہیں۔ اس کے علاوہ صوفی ممالک میں سبھی صوفی ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے سعودی وفادار وہابی بھی جب سعودی و قطر کے علاوہ ترکی و چیچنیا جیسے صوفی ممالک میں جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو پکا صوفی اور اہل تصوف ہی کہتے ہیں۔ بلکہ با قاعدہ خانقاہی ہو جاتے ہیں۔ ایک زائد مثالیں ایسی ہیں جہاں صوفی اور تصوف کا انکار کرنے والے اپنے آپ کو صوفی بتا کر مقبولیت و شہرت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ جب اس طرح کے حالات
ہوں کیسے یقین کیا جائے کہ جو بھی مذہبی و شرعی اختلافات ہیں ان کی وجہ دین و عقائد ہیں ۔
اہل سنت سے تعلق رکھنے والوں کا بھی یہی حال ہے ۔ وہ خود بھی کسی ایک بات پر متفق نہیں۔ ایک دوسرے کو کفر گمرہی کے کے تاریک گھر میں قید کرنے کی ہو ڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ جو جتنا بڑا ٹھیکیدار ہے، وہ اتنا ہی بڑا کارخانہ کفر و گستاخی کا لیکر بیٹھا ہے ۔ اس کی ہیبت اتنی ہے کہ کسی کو بھی اس کے خلاف سچ او ر حق بولنے کی ہمت نہیں۔ صرف ایسا ہی نہیں کہ بولنے سے اس کے جان و مال کا خطرہ ہے ۔ ویسے مال کا ہی خطرہ ہے ۔ پروگرام نہیں ملیں گے ۔ چندہ نہیں ہوگا ۔ چندے اور پیشہ ورانہ دعوت وتبلیغ ، امامت و خطابت پر زندگی بسر کرنے والوں کی روزی روٹی کا مسئلہ جڑا ہوتا ہے ۔ اب اس کے آگے دین کے ساتھ سمجھوتا کیا جا سکتا ہے ۔ہاں جس گروپ سے رزق کو منسوب کر رکھا ہے اگر اس کے حزب مخالف کا معاملہ ہے تو اس میں حق گوئی و بے باکی عین ایمان ہوگی ۔ اگر چہ اس کے لئے بے جا تاویل اور قرآن حدیث میں جبرا دخل اندازی کرنی پڑے ۔ سب کچھ کیا جائے گا ۔ تاکہ ہمارے آقا خوش ہو جائیں اور خاص قرب میں جگہ عنایت فرمائیں۔ ایسے مسلمانوں کی ایک منڈی ہے۔ جس میں چند ٹھیکیدار ہیں۔ جو اپنا اپن گروپ تیار کر رہے ہیں ۔ کوئی خوش کر کے تو کوئی ڈرا دھمکاکر ۔ الگ الگ طریقے اور انداز ہیں۔ہاں دین سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ جسے دین سے لگاؤ ہو جائے ۔ شریعت کی خاطر اس کی غیرت جاگ جائے تو سب ٹھیکیدار اس کے خلاف متحد ہو جاتے ہیں۔
جس کے نزدیک کسی وہابی سے ہاتھ ملانا، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ، کھانا پینا ،اس کے پیچھے نماز پڑھنا ، حتی کہ کسی بھی طرح کے معاملات رکھنا درست نہیں ۔ اس کے بعد جب وقت پڑے تو خود ان کے ساتھ غسل کعبہ میں شرکت بھی کی جائے ۔ ان کی طرف سے حج و عمرہ بھی کیا جائے ۔ان کی ضیافت کو قبول کیا جائے ۔ یہ تو عجیب معاملہ ہے ۔
آج کے اس دور میں ہر چیز اور ہر شخص بے معنی نظر آتا ہے ۔ کوئی بھی شخص کسی شخص سے بغیر کسی مقصد کے نہ ملتا ہے اور نہ ہی اس سے اتحاد و اختلاف رکھتا ہے ۔ یہ انسان کا بشری تقاضہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس کو دین کا نام دینا شیطنت کے سوا کچھ بھی نہیں۔دکھاوا، ریاکاری اور منافقت میں اخلاص دیانت داری کی کھلی کردار کشی ہو رہی ہے۔ ایسے میں ہم کیا کریں؟
کام کرنے والوں کو کسی بھی ٹھیکیدار سے بیزار ہو کر کام کرنا ہوگا۔ عوام کو سمجھنا ہوگا کہ جسے بھی کام سے اختلاف ہو وہ دین کا دشمن ہے ۔ اسے قوم مسلم اور اسلام سے کوئی وابستگی نہیں۔ وہ تاجر ہے جو دین کی بھی تجارت پر آمادہ ہے ۔اس کا تعلق چاہے جس مسلک یا فرقہ سے ہو۔ایسی کسی بھی اجارہ داری کو بالائے طاق رکھ کر تعمیر و ترقی کی راہیں ہموار کرنی ہوں گی۔کسی ایسی لکیر کے فقیر ہونے سے اجتناب واضطراب لازم کرنا ہوگا جسے تعصب یا اندھی تقلید کی قلم سے کھینچا گیا ہو۔


Share: